ذیل میں جو واقعہ بیان کر رہا ہوں ۔یہ کسی کی آپ بیتی ہے جو اسی کی زبانی پیش کروں گا ۔
۔ترنڈہ محمّد پناہ اور ظاہر پیر سے براستہ روڈ صادق آباد کی طرف سفر کیا جائے تو راستے میں سردارگڑھ آجاتا ہے ۔اب تو ہر طرف چھوٹی بڑی تارکول کی سڑکیں بن گئی ہیں۔ پہلے یہ سڑکیں ناپید تھیں ۔۔یہ کم از کم 45 50 سال پہلے کی بات ہے ۔گھنے جنگلات کی بھرمار تھی ۔انسانی آبادی بہت کم تھی۔ ویران علاقے بہت زیادہ تھے ۔ہندو جن کو مقامی لوگ کراڑ کہتے تھے ۔۔کراڑوں کے مکان پراسرار کی قسم کے ہوتے تھے ۔۔پاکستان بن جانے کے بعد وہ ہندوستان ہجرت کر گئے تھے ۔بڑے بڑے سیٹھ ہندو ہی رہ گئے تھے جو آج بھی سندھ اور بلوچستان میں موجود ہیں۔ ان کے شمشان گھاٹ جہاں مردوں کو جلایا جاتا تھا ۔کئی مکانوں اور دکانوں پر مسلمان قابض ہوگئے تھے اور کئی مکان غیر آباد تھے جو کھنڈر بن گئے ۔
۔سردیوں کی ایک شام تھی ۔میں اور میرے ماموں سڑک کنارے کھڑے تھے ۔ایک پرانی بس ہمیں اتار کر جا چکی تھی ۔ہم نے کچھ آگے اپنے گھر جانا تھا ۔۔چاند کی چودہ تاریخ تھی ۔ہم کھڑے سوچ رہے تھے کہ آگے سفر جاری رکھیں یا یہیں پہ رات بسر کرکے صبح اپنے گھر جائیں ۔کچھ مکانات جن سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ یعنی وہاں لوگ کھانا پکانے کی تیاریاں کر رہے تھے ۔اس علاقے میں ہماری واقفیت بھی نہیں تھی۔ اس لیے ہم ماموں بھانجے نے فیصلہ کیا کہ ہم چلتے چلتے اپنے گھر پہنچ جاتے ہیں ۔ہمیں تھکن تو تھی مگر ہم ڈھائی تین کوس کا سفر پیدل کرنے کے قابل تھے ۔ہم دونوں چلنا شروع ہو گئے۔
یہ 1965 کی جنگ سے 3۔۔۔2 سال پہلے کی بات ہے۔ اس وقت غیر آباد زمین بہت زیادہ تھی۔۔ ہو کا عالم طاری رہتا تھا ۔۔ہم پیدل سفر کرتے کرتے جلال پور کے قریب ہو رہے تھے ۔۔ہمارے دائیں بائیں کھجوروں کے گھنے درخت موجود تھے ۔۔سامنے ایک گھنے درخت والا باغ نظر آ رہا تھا ۔۔
وہاں میں نے ایک عجیب سا نظارہ دیکھا جسے دیکھ کر میں تو گھبرا گیا لیکن میرے ماموں بالکل نہیں گھبرائے ۔ کیونکہ وہ انہی علاقوں کے رہنے والے تھے اور ایسے نظاروں سے ان کا اکثر واسطہ پڑتا رہتا تھا ۔ہم نے دیکھا کہ ایک درجن کے قریب مٹی کے دیے روشن تھے جو زمین سے دس فٹ کی بلندی پر متحرک تھے۔ وہ ہمیں دائرے کی صورت میں گھومتے ہوئے نظر آئے ۔یہ ایک purasrar منظر تھا جو ہم دونوں ماموں بھانجے حیرت سے دیکھ رہے تھے ۔۔پھر وہ دیے ایک لمبی قطار میں باغ کی طرف بڑھ گئے۔ وہ جنات جنہوں نے یہ دیے اٹھا رکھے تھے وہ ہمیں نظر نہیں آرہے تھے ۔۔باغ کا لکڑی والا گیٹ اس وقت کھلا ہوا تھا ۔۔اچانک باغ کے گیٹ سے ایک لمبا تڑنگا آدمی نکلا اور تیزی سے ہماری طرف آیا ۔۔اور اچانک کچھ ہاتھوں نے مجھے باغ کی دیوار پر بٹھا دیا اور میں اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور ٹوٹی ہوئی اینٹوں پر اندر جا گرا۔۔ میں ہربڑا کر جلدی سے اٹھا اور باہر نکل گیا ۔باہر میرے ماموں کو کھڑے تھے ۔انہوں نے مجھے پوچھا ۔"تو کہاں چلا گیا تھا"؟؟
میں حیران رہ گیا ۔۔میں سوچنے لگا کہ کیا مجھے ماموں نے فضا میں بلند ہو کر دیوار کے اوپری حصے پر جاتے نہیں دیکھا ۔میں نے سوچا ۔یہ بات میں ماموں کو نہ بتاؤں تاکہ وہ پریشان نہ ہوں ۔ میں نے ان کو ٹال دیا کہ میں رفع حاجت کے لیے گیا تھا ۔ماموں چپ ہو گئے ۔
۔اتنے میں وہ لمبا آدمی ہمارے قریب آ پہنچا ۔۔اس نے اپنے ہاتھ میں ایک تھال اٹھایا ہوا تھا۔۔ جو ایک رومال سے ڈھکا ہوا تھا۔۔ میں سمجھ گیا کہ یہ شخص جنات میں سے ہے ۔۔اس کے دونوں کانوں کی لوئیں اتنی لمبی تھیں کہ کندھوں تک آ رہی تھی ۔۔اس کی بڑی بڑی آنکھیں شعلے برساتی نظر آئیں ۔۔ وہ بالکل انگارے کی طرح سرخ تھیں۔۔ میں گھبرا کر زمین پر بیٹھ گیا ۔۔وہ سخت لہجے میں بولا۔"" نیچے نہ بیٹھ ۔ کھڑا ہو جا""
۔۔میں ایکدم کھڑا ہو گیا۔۔ اچانک اس شخص نے ہاتھ ہلایا تو قریب ہی ایک گدھا موجود ہوا ۔
۔وہ شخص بولا ۔۔""کوئی اور موقع ہوتا تو ہم تمہیں ضرور نقصان پہنچاتے۔ لیکن آج ہمارے لیے خوشی کی رات ہے ۔۔میں قوم جنات میں سے ہوں۔ میرے بیٹے کی شادی ہے۔۔ میں تمہارے لئے کھانا لایا ہوں۔۔ تم گھبراؤ نہیں ۔۔ہم تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔۔ آج خوشی کی رات ہے۔۔ تم کھانا کھا کے اس تھال کو یہیں رکھ دینا ۔۔ساتھ نہ لے جانا ۔۔ہم نے جلالپور کے گھروں سے یہ برتن اٹھائے ہیں۔۔ صبح ہونے سے پہلے ہمیں ان برتنوں کو واپس اسی جگہ رکھنا ہے جہاں سے اٹھائے ہیں ۔۔تم لوگ کھانا کھا کر اس گدھے پر سوار ہو کر یہاں سے دور چلے جانا اور واپس اس راستے پر ہرگز نہ آنا۔۔ جہاں سے تمہیں روکا جا رہا ہے۔۔ کیونکہ ہماری قوم میں وحشی شرارت پسند جنات بھی ہیں جو تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔۔ایک اور بات تم لوگ یاد رکھ لو کہ یہ گدھا جب اپنی گردن ہلائے۔ تو فوراً نیچے اتر جانا ورنہ بعد کے نقصان کے تم خود ذمہ دار ہو گے ۔۔ یہ کوئی عام گدھا نہیں ہے۔۔ بلکہ یہ قوم جنات کی سواری ہے اور یہ تمہیں صرف اس لئے دی جارہی ہے کہ تم ہمارے مہمان ہو اور ہم لوگ مہمان نواز ہیں ۔۔اگر آج ہماری خوشی کی رات نہ ہوتی تو ہم تمہیں جلالپور کی دیواروں میں چن دیتے ""
۔۔میرے ماموں کی طرف اشارہ کرکے بولا۔"" یہ آدمی بہت معصوم ہے اور ہمیں اس کا چہرہ بہت پسند آیا ہے ۔۔یہ ایک نیک اور سیدھا سادہ بے لوث انسان ہے . ہم ایسے انسانوں اور ان کے ساتھیوں کو نقصان نہیں پہنچاتے۔۔ تم اس اچھے آدمی کے ساتھی ہو ۔ اس لیے ہم تمہیں بھی نقصان نہیں دے سکتے""۔
۔۔میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ""اے ہمارے محسن؛ یہ تو بتائیے؛ کیا یہ گدھا پرواز بھی کر سکتا ہے""۔
۔وہ بولا"" ہاں یہ اوپر اڑ بھی سکتا ہے مگر جب تک تم لوگ اپنی منزل کے قریب نہیں پہنچ جاتے۔ یہ اڑے گا نہیں ۔۔کیونکہ تم لوگ زمین پر گر سکتے ہو ۔۔یہ تمہیں پیٹھ پر بٹھا کے نہیں اڑے گا بلکہ واپسی پر ہمارے پاس اڑ کے آئے گا"" ۔
۔پھر اس نے تھال میری طرف بڑھایا۔۔ میں کچھ نارمل ہوگیا تھا ۔۔میں نے کہا ""اے نیک جن کیا ہم دور سے آپ کی شادی کی رسومات دیکھ سکتے ہیں ۔""
۔وہ بولا ""ہاں بالکل دیکھ سکتے ہو مگر قریب نہ آنا ۔۔ہمارا سردار بھی موجود ہے۔۔ جو شاید تمہیں پسند نہ کرے ""۔
۔۔اتنا کہہ کر وہ وہاں سے غائب ہو گیا ۔۔میں نے تھال سے جب رومال ہٹایا تو اس میں چاول تھے ۔۔چاولوں کی خوشبو نے ہمیں مسحور کر دیا۔۔ جب ہم نے چاول کھانے شروع کیے تو طبیعت خوش ہوگئی۔۔ بڑے لذیذ چاول تھے۔۔ تھال خالی کر کے ہم نے اسے وہیں رکھ دیا ۔۔
میں نے ماموں سے کہا"" آپ یہیں بیٹھں ۔۔ میں ذرا نظارہ کر آؤں ""۔
۔۔میں تھوڑا سا آگے بڑھا اور راستہ بنا کر باغ کے اندر جھانکنا شروع کیا ۔۔اندر عجیب سماں تھا روشنی ہی روشنی تھی ۔۔ مجھے وہاں پر بہت پرسرار چہرے نظر آئے ۔۔جن کے کانوں کی لوئیں ان کے کندھوں کوچھو رہی تھیں ۔۔ایک بڑے تخت پر بڑے سر والا جن بیٹھا تھا ۔۔ھلکی ھلکی موسیقی تھی ۔۔چند لمحوں بعد میں ماموں کے پاس آ گیا۔۔ میں نے ماموں کو سب کچھ بتا دیا ۔۔
ماموں نے کہا: اب چلیں ؟
میں نے کہا ۔جی چلتے ہیں ۔۔
ہم اس گدھے پر سوار ہوئے ۔میں سوچ رہا تھا کہ یہ گدھے کو راستہ کیسے پتہ چلے گا ۔۔مگر میں حیران ہوا کہ وہ گدھا سر جھکائے چلتا رہا اور وہ اسی راستے پر چل رہا تھا جو ہمارے گاؤں کی طرف جا رہا تھا ۔
۔اچانک اس گدھے نے اپنی گردن ہلائی ۔اس سے پہلے کہ ہم لوگ نیچے اترتے ۔۔ تیزی سے اس کا قد بڑھنے لگا ۔۔اب وہ اونٹ کے کوہان کے برابر اونچا ہو گیا تھا۔۔
یہ دیکھ کر ہم پریشان ہوگئے ۔۔اچانک وہ غائب ہوگیا اور ہم زمین پر گرے ۔۔ہماری عافیت اسی میں تھی کہ ہم بھاگ کر وہاں سے نکل جاتے۔۔ چنانچہ ہم لوگ بغیر رکے اپنے گاؤں پہنچے اور گھر جا کر دم لیا ۔۔یہ بہت پرسرار مناظر تھے ۔۔ اس لیے ہم نے کسی سے ان کا ذکر نہیں کیا ۔۔میں چند دن ماموں کے ہاں رہا ۔میرے دل میں بہتtajasus تھا کہ دن کی روشنی میں مجھے اس باغ کو اندر سے دیکھنا چاہیے ۔
۔جب میں نے واپسی کا پروگرام بنایا ۔۔کھانا کھا کے تقریبا دن کے گیارہ بجے میں اور میرے ماموں روانہ ہوئے ۔۔ماموں نے کچھ سفر میرے ساتھ کرنا تھا ۔۔جب ہم اس باغ کے قریب پہنچے تو میں نے ماموں سے کہا کہ آپ کچھ دیر یہاں کسی درخت کے سائے میں بیٹھں ۔۔ میں ذرا باغ کا چکر لگاؤں ۔
۔ماموں نے کہا" دور سے اس جگہ کو دیکھنا جہاں جنات کی شادی دیکھی تھی۔ اس کے قریب نہ جانا ۔یہ جگہ بھاری ہوتی ہے اورجنات نقصان پہنچانے سے باز نہیں آتے"۔۔
میں نے کہا "پریشان نہ ہوں۔۔ میں دور سے ہی وہ جگہ دیکھ کر آ جاتا ہوں "۔
۔۔میں باغ میں داخل ہوگیا ۔۔مجھے سامنے ہی درختوں کے نیچے ایک چارپائی بچھی ہوئی نظر آئی ۔۔جس پر ایک بڑے پیٹ والا شخص نظر آیا جو ہاتھوں سے کھجور کا بان بٹ رہا تھا ۔۔اس نے مجھے کہا" او بچے کیا کام ہے "۔
۔میں اس کے قریب پہنچ گیا اور اس سے ہاتھ ملایا ۔ اس نے مجھے چارپائی پر بیٹھنے کو کہا ۔میں بیٹھ گیا اور ادھر دیکھنے لگا جہاں بھی جنات کی شادی دیکھی تھی ۔
اس آدمی نے مجھے کہا" بچے کہاں سے آئے ہو اگر مجھ سے کوئی کام ہے تو بتاو" ۔۔
میں نے کہا" میں فلاں بستی سے آیا ہوں۔ اپنے شہر جا رہا ہوں ۔کچھ دن پہلے میں اپنے ماموں کے ساتھ جہاں سے گزرا تو جنات سے ہمارا واسطہ پڑ گیا تھا۔ انہوں نے ہمیں چاول کھانے کو دیئے تھے اور سواری کے لئے ایک گدھا بھی دیا تھا جو کہ لمبا ہو گیا تھا ۔۔بعد میں وہ غائب ہوگیا ۔ہم نیچے گر گئے اور میں نے ان کی شادی بھی دیکھی تھی۔ اب میں تسلی کرنے آیا ہوں کہ کیا واقعی اس باغ میں جنات رہتے ہیں ۔"
۔میری بات سن کر وہ بوڑھا بولا ۔۔"تم بالکل سچ کہہ رہے ہو۔۔ باغ کے اس حصّے میں جنات کا بسیرا ہے۔۔ میں اس عرصے سے اس باغ میں رہتا ہوں اور اس طرح کے کئی نظارے دیکھ چکا ہوں" ۔
۔اس کے ساتھ ہی اس بوڑھے کی آنکھیں سرخ ہونا شروع ہوگئیں ۔۔اور وہ جھومنے لگا۔۔ جھومتے جھومتے اس نے چارپائی کے قریب پڑا ہوا گھڑا اٹھا کر میرے چہرے پر دے مارا ۔۔جو میری دائیں آنکھ کے قریب لگا اور ٹوٹ گیا ۔۔مٹکا لگنے سے میری جلد پھٹ گئی اور زخم سے خون بہنا شروع ہو گیا ۔
۔شاید اس پر جن آ گیا تھا۔۔ پھر بوڑھا جھومتے جھومتے چارپائی سے نیچے گر گیا۔۔ اتنے میں سامنے سے ایک عورت بھاگتی ہوئی آئی اور بولی "ہائے میرے میاں پر جن آگیا ۔۔اے لڑکے بھاگ جا یہاں سے"۔۔
میں فورن باغ سے باہر نکل آیا اور ماموں کے پاس پہنچا۔۔ وہ میرا خون آلود چہرہ دیکھ کر گھبرا گئے ۔۔پاس ہی کھیتوں کو سیراب کرنے والی نالی میں پانی بہہ رہا تھا۔ میں نے اس پانی سے چہرہ صاف کیا۔۔ ماموں نے تھوڑا سا کپڑا پھاڑ کے مجھے دیا کہ میں اس کو باندھ لوں تاکہ خون بہنا بند ہو جائے ۔۔میں نے ماموں کو ساری بات بتائی اور ہم وہاں سے روانہ ہو گئے ۔۔
ماموں نے کہا" اس بوڑھے پر جب جن آ گیا تھا تو تم فورا وہاں سے چلے آتے"۔۔
میں نے ماموں سے کہا کہ" میں نے جیسے ہی ارادہ کیا ۔۔لیکن اس سے پہلے کہ میں وہاں سے نکلتا ۔۔ اس نے مجھے گھڑا دے مارا ۔"
۔ماموں نے کہا "اب یہ بات کسی کو نہ بتانا" ۔۔پھر ہم چلتے ہوئے اڈا پہنچے اور بس کا انتظار کرنے لگے۔۔ ایک گھنٹے بعد رحیم یار خان کی طرف سے بس آ گئی اور میں بس میں سوار ہو گیا ۔۔اس طرح ہمیں اپنے شہر پہنچ گیا ۔۔اس واقعے کو ایک لمبا عرصہ ہوگیا ہے اور اس کہانی کی سچائی کی بڑی نشانی اب تک میرے چہرے پر داغ کی صورت موجود ہے ۔۔
0 Comments